hamzad series 1


سحر ، جنات اور ہمزاد:
جادو جس میں تنتر منتر سے کام لیا جائے اس کا تعلق صرف جنات سے ہی ہے
تنتر میں کچھ کام کئے جاتے ہیں اور منتر میں الفاظ پڑھے جاتے ہیں جس کے
ہمراہ کچھ کام بھی کیا جاتا ہے ۔ یہ سب جانتے ہیں الفاظ میں بری قوت
ہےمنتر کے ذریعے جنات یا دیوتاؤوں کی مدد مانگی جاتی ہے ۔ اس کو وکیل و
کارساز بنایا جاتا ہے اور مدد طلب کی جاتی ہے ۔ جادو دو قسم کا ہوتا
ہےایک نظر بندی دوسرا اصلیت بدل دینا۔ نظر بندی میں انسانی خیال دھوکہ
کھاتا ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام و فرعون کے قصہ میں ہے کہ سَحَروا
اعین الناس )پ ۹ رکوع ۲(۔ یعنی لوگوںکی نظر بندی کر دی ۔ جادوگروں نے جب
لکڑیاں پھینکیں تومعلوم ہوتا تھا سانپ چل رہے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم پر جادو کیا گیا تو آپ ایک کام کرلیتےتھے لیکن خیال
ہوتاتھا کہ نہیں کیا ۔ یا کام نہیں کرتے تھے تو خیال کرتےتھے کہ کرلیا ہے
۔
جادو کی دوسری قسم میں اصلیت بدل جاتی ہے مثلاََ جادو کے زور سے کسی
انسان کو جانور کی شکل میں بدل دینا یا جادوگر کاجادو کے ذریعہ ہوا میں
اڑنا۔
علامہ بنیانی رحمتہ اللہ علیہ نے حاشیہ بیضاوی میں لکھا ہے کہ جادو وہ ہے
جو کسی حرام فعل یا قول کی مزاولت کی وجہ سے جو قوت و قدرت خارق عادت
ہوتی ہے ۔ تفسیر نیشاپوری میں ہے کہ بعض اقسام
سحر میں وہ ہیں جن میںارواح ارضیہ سے مدد چاہی جاتی ہے بعض تسخیر جنات کے
عمل بھی اس قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم جادوکی یہ ہے کہ جنات وغیرہ زمین
والوں کی روحوں سے امداد اور اعانت طلب کرنا ہے ان روحوں سے تعلق قائم
کرنا بھی جادو کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔آسیب زدہ اور مسحور میں فرق یہ ہے
کہ آسیب زدہ پر جن خود مسلط ہوجاتا ہے اور مسحور پر عامل یا جادوگر
افعال والفاظ کےذریعہ یا کچھ کھلا کر مسلط کر دیتا ہے تفسیر ابن جریر میں
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہعلیہ وآلہ وسلم کی وفاتکے بعد علاقہ دومتہ
الجندل کی ایک عورت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی تلاش
میں آئی ۔ اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنا واقعہ بیان کیا کہ
میرا شوہر مجھ سے ناراض ہو کر کہیں چلا گیا ہے میں نے ایک بڑھیا سے اس کا
ذکر کیا وہ بڑھیا دوسرے روز دو کتّے لےکر میرے گھر آئی ایک پر خود
سوارہوئی
اور دوسرے پر مجھے سوار کیا پھر ہم دونوں بابل پہنچیں ۔ یہاں پہنچ کر
دیکھا کہ دو شخص زنجیروں سے جکڑے ہوئے لٹک رہے ہیں وہ اصل میں دونوں
جادوگر تھے بڑھیا کے کہنے پر میں نےان دونوں جادوگروں سے جادو سیکھنے کی
خواہش ظاہر کی انہوںنے منع کیا جب میں نہمانی تو انہوں نے کہاکہ جاؤ پہلے
اس تنور میں پیشاب کر آ ۔ میں گئی تو مجھے ڈر لگا اور بغیر پیشاب کئے
واپس آگئی اور کہا کہ کر آئی ، انہوں نے پوچھا کہ تونےکیا دیکھا میں نے
کہا کہ کچھ نہیں دیکھا ۔ انہوں نے کہا کہ تونے پیشابہی نہیں کیا اور ابھی
تیر کچھ نہیں بگڑا ، تیرا ایمان سلامت ہے جادو نہ سیکھ ۔ لیکن میں نہ
مانی پھر پیشاب کرنے کو کہا گیا تو میں پھر جا کر بغیر پیشاب کئے واپس
آگئی اور وہی کہا جوپہلے کہا تھا اب میں تیسری بار گئی اور پیشاب کیا تو
دیکھا کہ ایک گھوڑے پر سوار منہ پر نقاب ڈالے آسمان پر چڑھ گیا ہے ۔ میں
نے واپس آکر ان سے کہا تو انہوں نے کہا کہ یہ تیرا ایمان
تھا جو چلا گیا ۔ یعنی اب تو بے ایمان
ہوگئی ۔ اب جا تجھے جادو آگیا ۔ میں نے گھر آکر تجربہ کیا یعنی ایک
دانہ گیہوں زمیں پر ڈال کر کہا کہ اگ جا ، وہ فوراََ اُگ گیا ۔ میںنے کہا
گندم کا سٹہ پیداہوجائے ، فوراََ پیدا ہوگیا میں نے کہا سوکھ جائے فوراََ
سوکھ گیا میں نے کہا دانے الگ ہوجائیں ۔ فوراََ دانے الگ ہوگئے ۔ میں نے
کہا آٹا بن جائے ۔ آٹابن گیا میں نے کہا روٹی پک جائے ۔ روٹی
پک گئی ۔
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت
سلیمان علیہ السلام نے زمانہ نبوت میں سحر و کہانت کی کتابیں اپنی کرسی
کے نیچے دن کرادی تھیں تاکہ کسی کے ہاتھ نہ لگ جائیں پھر حضرت سلیمان
علیہ السلام کی وفات کے بعد جنات نے نکال کر ان کی شہرت کیاسی وجہ سے
یہودی حضرت سلیمان علیہ السلام کی نبوت کے منکر تھے اور جادوگر کہتے تھے
انبیاء اللہ جو معجزات دکھاتے تھے تو کافر انہیں جادوگر سمجھتے تھے
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی کہا گیا حذا سحر کذاب
)پ۲۳ رکوع۱(۔ یعنی یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے )نعوذباللہ(۔حضرت موسیٰ و
حضرت ہارون علیہما السلام کے بارے میں بھی کہاگیا کہ دونوں جادوگر ہیں
)پ۱۶ رکوع ۱۲(۔
جس شخص پر سحر ہوتا ہے اس پر ایک جن
مسلط کر دیا جاتا ہے وہانسان کو مجبور کر کےوہی کام کراتا ہے جسکے لئے یہ جن مسلط
کیا گیا تھا اور مسحور مثل ایک مخبوط کے ہوتا ہے اسی وجہ سے کفار انبیاء
اللہ کو مسحور کہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منفیکہا
گیا کہ ان تتبعونالا رجلا مسحورا
یعنی ایسے آدمی کے پیچھے ہوتے ہوجس پر جادو کردیا گیا ہے ۔ )سورہ فرقان
آیت نمبر ۸(۔
حضرت صالح علیہ السلام
کے لئے کہا گیا تھا کہ انما انت من المسحرین)سورہ الشعراء آیت ۱۵۳(۔
یعنی تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کر دیا ہے ۔
ایک جن اور ہوتا ہے جسے عاملین ہمزاد کہتے ہیں قریں بھی کہتے ہیں لیکن اس
کی خاصیت و اہلیت جنات کے طبقہسے الگ ہوتی ہے اس لئے کہ یہ انسان کے
ہمراہ ہوتا ہے اور ہر وقت انسان کے ساتھرہتا ہے جو آدمی نیک ہوتا ہے اس
کا ہمزاد بھی نیک ہوتا ہے جو آدمی کفر و شرک میں مستغرق رہے اس کاہمزاد
بھی کافر و مشرف ہوتا ہے مرد انسانکے ساتھ جن اور عورت
کے ساتھ جنیہ پیدا ہوتی ہے ۔ عاملین اس ہمزاد ہی کو اپنے اعمال
کے ذریعہ اپنا فرمانبردار اور مطیع بنالیتے ہیں اور عندالضرورت اس سے کام
بھی لیتے ہیں لیکن یہ جادو میں نہیں آتا۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ تم میں سے کوئی آدمی نہیں جس کے ساتھ
ایک جن اور ایک فرشتہ
نہ ہو اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ ہر ایک آدمی کے ساتھ اس کا ایک قرین
موکل ہوتا ہے لوگوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ بھی ، فرمایا میرے ساتھ بھی
، مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غالب کردیا ہے وہ اسلام لے آیا ہے ۔
قرآن میں ہے “ومن یکن الشیطن لہ قرینا فساء قرینا )پ ۵ رکوع ۳(یعنی اور
جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو ۔ یہاں قریںکو شیطان کہا گیا ہے ایک
اور جگہ ہے وقیضنالھم قرناء )پ ۲۴ رکوع ۱۷( یعنی ہم نے ان کے کچھ ہمنشیں
مقرر کر رکھے ہیں )پارہ ۱۵ رکوع ۱۰ ( حتی اذا جاء آیت کا مطلب یہ ہے کہ
جب ہمارے )اللہ کے ( پاسآئے گا کہے گا میرے اور تیرے )قریں یعنی شیطان
کے ساتھی( کے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوریہوتی ۔ تو بڑا بُرا ساتھی ہے
اور ایک اورجگہ پارہ ۲۵ رکوع ۱۶میں ہے قال قرینہ یعنیاس کا قرین کہے گا
کہ اے ہمارے رب میں نے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی
گمراہی میں تھا ۔
ان آیات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ قرین و شیطان ایک ہی سے ہے جو آدمی کے
ساتھہے اس کو جن بھی کہا گیا ہے احادیث سے بھی یہی ثابت ہے چونکہ یہ ہمہ
وقت انسان کے ساتھ اور پاس رہتا ہےاس لئے اسے ساتھ ، قرین کہا گیا ہے اس
کو ہمزاد یا ہمنام بھی کہتے ہیں دیگر جنات سے الگ اسے ایک اہم مقام
حاصلہے ۔
جنوں کی قسمیں تو بے شمار ہیں لیکن پیدائش کے لحاظ سے دو ہیں ایک تو وہ
طبقہ جن کی اولاد ماں باپ سے ہوتی ہے جیسے انسان کی ۔ دوسری قسم وہ ہے جو
انسان کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں لڑکے کے ساتھ لڑکا ۔ لڑکی کے ساتھ لڑکی ۔
اور جب یہ لڑکا یا لرکی مر جاتی ہے تو وہ جن یا ہمزاد مرتا نہیں بلکہ
آزاد ہوکر علیحدہ رہتا ہے ۔
عورتوں پر جو اثرات ہوتے ہیں ان میں سے ایک مقرون ہے ۔ مقرون کا مطلب ہے
جس پر قرین کا اثر ہو یہ عورتیں زمانہ حمل میں بیمار رہتی ہیں اور
عموماََ ۹ ماہ سے پہلےہی اسقاط ہوجاتا ہے اور پیدا ہونے کے بعد مرجاتا ہے
یا اگر کچھ زندہ رہا تو سوکھ کریا رنگ بدل کر مرجاتا ہے ایسے بچے عموماََ
چالیس دن کے اندر یا سال دوسال میں مرجاتے ہیں ہندی میں اسے مسانکہتے ہیں
مسان کے معنی ہیں “بڑا بھوت” ۔کہتے ہیں جو نابالغ بجے مرجاتے ہیں یہ ان
کا قرین ہوتاہے اس وجہ سے نہ تو عامل کے بلانے سے بولتا ہے اور نہ نشان و
مقام بتاتا ہے ۔
تجربہ ہے کہ جس شخص کا ہمزاد یا قرین بگڑ جائے گا وہ اس پر اپنا اثر ڈال
دے گا اگر یہ اثر جان لیوا نہ ہو تو مخبوط الحواس کردیتا ہے بڑے آدمی جو
ہمزاد کوتابع کرنے کے عمل کرتے ہیں تو وہ جس مقصد کے لئے عمل کرتے ہیں
ناکام عمل کی صورت میں اس مقصد کو ضبط کرلیتے ہیں مثلاََ ایک شخص ہمزاد
کا عمل اس لئےکرتا ہے کہ اس سے روپیہ حاصل کرے یا ریس و سٹہ کا نمبر
معلوم کرے تو اگر عمل
فیل ہوا تو ہمزاد اس کی آمدن روک دے گا اور تنگ حال کر دے گا اگر کسی
شخس نے ہمزاد کا عمل اس نیت سے کیا کہ وہ فلاں لڑکی کو قابو کر کے شادی
کرے گا تو عمل ناکام ہونےکی صورت میں اس شخص کی شادی کہیں نہ ہو سکے گی
اس کے علاوہ ناکام ہونے کی صورت میں جابجا نظر آتارہتا ہے ۔
قرین اور جنات کے اثرات
کی علامت مختلف ہوتیہیں ۔ جنہیں عامل پہچان لیتے ہیں بعض ہندو عامل جب
مردہ جلتا ہے تو پاس بیٹھ کر عمل کرتے ہیں ۔ چار کیل گاڑ کر اوپر کچا سوت
باندھ کر ایک چوکور جگہ بنالیتے ہیں عمل پڑھتے ہیں تو ایک شعلہ چتا سے
آکر تار پر چلتا ہے ساتویں چکر تک عامل ہاتھ مارکر بجھا دیتا ہے اور
نیچے جس قدر مٹی ہاتھ آتی ہے وہ اٹھا کر ڈبیہ میں بند کرلیتا ہے اس میں
اس مردہ کی روح قابو آگئی تو وہ ایک چٹی جس شخس کو کھلا دیتا ہے اس پر
مسان آجاتا ہے ۔
یہ اثر اس مردہ کے ہمزاد کا ہوتا ہے بعض
کا ہمزاد ان کو خبریں دیتا ہے اگر سوتے وقت
اپنا نام لے کر کہیں کہ مجھے جگا دینا یہ بھی قرین یا ہمزاد کا کام ہے کہ
وہ وقت پر اٹھا دیتا ہے اکثر قبروں پر جو منتیں مانی جاتی ہیں وہ بھی
صاحب قبر کا قرین انہیں پورا کرتا ہے ۔
جنات، ہمزاد اور شیاطین
کا عمل کے ذریعہ تابع کرنا ممکن ہے بہت لوگ عمل کرتے ہیں کچھ کامیاب بھی
ہوجاتے ہیں یہدراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کے معجزات جاریہ سے ہے وہ جس
فطرت کے ہوں اس کے مطابق کام کرتے ہیں بعض لوگ بغیر خلاف شرع کام کئے اور
بغیر شرکیہ اعمال والفاظ پڑھے ہمزاد یا جن کو تابع کرلیتے ہیں اس میں
کوئی ہرج نہیں ۔