amliyat taweez

MANTER HUB



"KALI KALI KALKATTAY WALI TERA BACHPAN NA JAYE KHALI KHAYE PAN BAJAYE TAALI HAR HARY HARAN K KARRAY JAHAN LALKAROON WAHEN KHARRAY"


YEH KALI KALKATTAY WALI HUB K KAMON MEI LA'JAWAB AMAL HAI IS AMAL KO (2100) MRTABA (21) DIN MEI SUDH KAREN US K BAD JIS TAREEQA SE BHI KAM LENA CHAHO FORAN HOWA KAREY GA BOHAT JALALI MANTER HAI DORAN-E-AMAL JAN SE JANEY AUR PAGAL HONEY KA KHATRA BHI HAI IS LIAY BARRI EHTEYAT SE MAZBOOT DIL WALE HAZRAT HE BA'IJAZAT AMAL SHURU KAREN.

Thursday, November 14, 2013


HUB BHERON



"SONEY DA SANGAL DIN HOYE MANGAL BHERON DE CHARRHAYE FALANI HOYEE MERI SHEDAYEE"

HUB KA NAYAB MUJARRAB AMAL HAI BUS "SURAJ GIRHAN" MEI ZAKAWT DE KAR JIS KO DAM KAR K MITHAYEE KHILA DE WOHE MATEE HO AUR MOHABAT KA DAM BHAREY.


ہمزاد کے لفظی معنی ہیں ساتھ پیدا ہوا ۔ انگریزی میں اسےٹوئن اینجل کہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ یہ معلوم کریں کہ ہمزاد ہے کیا ؟
قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ

ومن کل شئی خلقنا زوجین لعلکم تذکرون
51/49
اور ہم نے دنیا کی ساری چیزوں کو زوجین بنایا ہے ۔ تاکہ تم لوگ نصیحت حاصل کرو۔
زوجین کا مطلب صرف “جوڑا جوڑا” ہی نہیں ۔ یعنی نرومادہ ہی نہیں بلکہ “دو دو ” بھی ہیں زوج سے مراد برابر کے ساتھی کےہیں ۔ جب ہم ایک جوڑاجوڑا کہتے ہیں تو اس کا مطلب نر و مادہ نہیں ہوتا بلکہ دو دو ہوتا ہے ۔ زوج وہ عدد بھی کہلاتا ہے کہ جب اس کو نصف کریںتو دونوں ٹکڑے ٹوٹے بغیر برابر رہیں ۔ جیسے ۴۔۶۔۸ ہیں ۔
قرآن میں زوجین کہہ کر نر و مادہ بھی مراد لیاہے اور دو دو بھی ، اس کا اندازہ یوں کیجئے کہ اس مفہوم کو واضح طور پر سمجھانے کے لئے قرآن نے بعض مقامات پر زوج کا لفظ اس کے آگے ذکر والانثی اور بعض جگہ اثنین کا لفظ بھی بڑھایا ہے تاکہ زوجین کا مطلب جوڑا جوڑا اور دو دو واضح ہوجائے ۔

فجعل منہ الزوجین الذکر والانثی
75/39
اور وہی پیدا کرتا ہے ۔”زوجین”نرومادہ

جعل فیما زوجین اثنین
13/7
بنایا اس نے ان میں “زوجین” “دودو”۔

اگر زوجین سے مراد صرف نرومادہ ہوتے تو دو میں کسی جگہ ذکر والانثی اور اثنین کے اضافہ کی ضرورت نہ تھی ۔ ایسا اس لئے کیا گیا کہ یہ واضح ہوجائے کہ جوڑا جوڑا کا مطلب صرف نر و مادہ ہی نہیں بلکہ دودو بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے انمقامات پر بھی جہاں نر ومادہ کا کوئی سوال نہیں زوج کا لفظ استعمال کیا ہےاور اسی سبب سے میں نے ترجمہ میں جوڑا جوڑادو دو لکھا ہے ۔ مثلاًباغ کے پھلوں کے بارے میں ہے ۔

ومن کل الثمرات جعل فیما زوجین اثنین
13/3

اور ان میں کے پھلوںکو جوڑا جوڑا دودو بنایا۔
میووں کے بارے میں ہے کہ

فیھما من کل فاکھتہ زوجین
55/52
ان دونوں باغوں میں کےسارے میوے جوڑا جوڑا دو دو ہیں

غرض اس طرح ساری چیزیں جوڑا جوڑا دو دو ہیں ۔

خلق الازواج کلھا
45/12
اور ہم نے ہر شے کو جوڑا جوڑا دو دو بنایا ہے۔

ہم انسان بھی کل شئی میں داخل ہیں ۔ اور ہم بھی جوڑا جوڑا دو دو بنائے گئےہیں۔

جعلکم ازواجا
35/11
تم لوگوں کو بھی بنایا ہے جوڑا جوڑا ، دو دو ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی زمین سے تخلیق کو نباتات کی پیدائش کے مماثل بتایاہے ۔

واللہ انبتکم من الارض نباتا
71/17
اور اللہ نے تمہیں زمینسے اگایا ہے ایک طرح کا “اگانا”۔

نہ صرف “انسان” اور “نباتات” ہی جوڑا جوڑا دو دو بنائے گئے ہیںبلکہ سب جوڑا جوڑا دو دو ہیں ۔ جن کی ہم کوابھی خبر بھی نہیں ۔

سبحن الذی خلق الازواج کلھا مما تنبت الارض ومن انفسھم ومما لا یعلمون
36/36
پاک ہے وہ خدا جس نے زمین سے تمام اگنے والوں کو اور خود ان کو اور جن کی لوگوں کو خبر نہین ۔ سب کو جوڑا جوڑا دو دو بنایا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذات انسانی جوڑا جوڑا دو دو ہے ۔ یعنی ہمارا جسم دو ہے ۔ ایک ظاہری خاکی جو مادہ سے بناہے ۔ آنکھ سے دکھائی دیتا ہے اور مرنے کے بعد فنا اور بے کار ہوجاتا ہے اور دوسرا نہایت لطیف جو ہمارے فانی مادہ جسم کے فنا اور ختم ہونے کے بعد بھی بدستور باقی رہتا ہے ۔ ہم اس دوسرے جسم کے لئے اصلطاحاً آئندہ نوری جسم کا لفظ استعمال کریں گے اسی نوری جسم کو آپ ذات انسانی کہہ سکتے ہیں اور یہی اپنے کو انا کہتا ہے اس طور پر ذات انسانی کے بارے میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وہ فنا نہیں ہوتی نیند کی حالت میں جو ہم اپنے آپ کو ادھر اُدھر رواں دواں دیکھتے ہیں وہ دراصلہمارا یہی نوری جسم ہوتا ہے جو نیند کی حالت میں ہمارے معطل خاکی جسم سے غیر مادی ہونے کے سبب جدا اور الگ ہوجاتا ہے انسان کے بارے میں آیا ہے کہ

ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید
50/18
وہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا اس کے پاس ایک نگہبان موجود ہے ۔

لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ
13/11
ہر شخص کے لئے چوکیدار ہے کہ جو آگے اور پیچھے سےخدا کے حکم سے اس کی نگرانی کرتے رہتے ہیں

ان کل نفس لما علیھا حافظ
86/4
کوئی ذات ایسی نہیں جس پر کوئی نگہباننہ ہو

غور فرمائیے کہ یہ رقیب عتید ، حاضر پاسبان ، موجود نگہبان مستعد چوکیدار اور ہمدردحافظ ہی ہمارا نوری جسم ہے ۔ جو ہمارے خاکی جسم سے وابستہ رہ کر ہر وقت ہماری نگرانی کرتا رہتا ہے وہایک الگ ذات ہوتے ہوئے بھی ہم سےالگ نہیں ہے وہ ہمارا شریک ہوتے ہوئے بھی ہمارے افعال کا جوابدہ نہیں ہے مگر وہہمارا خبر رساں ، نیک مشیر اور بہترین دوست ضرور ہے ۔
آپ کے گھر پر کوئی نئی بات ہوجاتی ہے آپ گھر سے دور ہوتے ہیں مگر یکایک آپ کو اندیشہ سا ہوجاتا ہے ، طبیعت گھبرانے لگتی ہے اور آپ گھر کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں وہاں پہنچ کر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں خاص بات ہوئی ہے ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ آپ کا نوری جسم کسی طرح موقع پا کر آپ کے خاکی جسم سے الگ ہوا تھا اور اس حقیقت کو وہ جان گیا تھا ۔ بہت سے مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ حادثات سے لوگ یکایک بچ گئے یا پھر کسی وجہ سے کسی مقام پر جانے یا سفر کرنے سے رک گئے اور اس کے بعد گھر پر کوئی خاص بات ہوگئی ہے یا اس مقام پر یا سفر میں لوگوں کو کوئی حادثہپیش آگیا ہے ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ کسی
طرح ہمارا نوری جسم یا ہمارا نادیدہ محافظ و مشیر اس حقیقت سے باخبر ہوگیا تھا اور اس نے ہماری رہنمائی کی تھی ۔

علم مسمریزم کے ذریعہ معمول سے بہت سی حقیقتیں دریافت کرلی جاتی ہیں اور وہ بتا دیتا ہے ۔ وہ بھی اسی نوری جسم کا کارنامہ ہے ۔
علامہ طنطاوی مصری نےاپنی کتاب تفسیر جواہرجلد نمبر ۱ میں مسمریزم کے سلسلے میں شادل کتاب “مغناطیہ حیوان”سے کئی قصےنقل کئے ہیں ان میں سے دو آپ بھی سنئے ۔
.
علامہ شادل اپنی کتاب مغناطیہ حیوان میں لکھتے ہیں کہ میں نے ایک لڑکی پر مسمریزم کا عمل کیا وہ سو رہی تھی اور مجھے مختلف امراج اوران کے مجتعلق بتلا رہی تھی اس نے مجھ سے کہا کیا تم سنتے نہیں مجھے کس طرح ان کے متعلق حکم دے رہا ہے ؟۔ میں نے کہا کہ میں تو کسی کی آواز نہیں سنتا ۔ لڑکی نے کہا خوب ، تم سو رہے ہو۔ اور میں آزاد و بیدار ہوں میں ایسی آواز اور چیزیں ادراک کر رہیہوں جن کے ادراک پرتم کو قدرت نہیں اور میں تمہاری انگلیوں کے کناروں سے رو نکلتے ہوئے دیکھ رہی ہوں دور دراز کی آوازیں میرے کانوں میں آرہی ہیں میں اس شخصکی باتیں جو کسی دوسرے ملک میں کر رہا ہے اچھی طرح سن رہی ہوں میں ایسی چیزوں تک پہنچ جاتی ہوں جو مجھ تک نہیںپہنچ سکتی ۔ اس وقتمیری حالت بیداری کیسی ہے جیسا کہ مرنے کےبعد انسان کو بیداری ہوتی ہے ۔ ص۲۱۸۔

علامہ مذکور ہمیشہ ایک لڑکی پر عمل تنویم کرتے تھے ایک مرتبہاس لڑکی کو انہوں نے معمول بنایا تو اس نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میرا جسم آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے ۔ حتیٰ کہ میں اس جسمسے بالکل علیحدہ ہوگئی ہوں اور اس کودور پڑا ہوا بالکل ٹھنڈا دیکھ رہی ہوں جیسا کہ کسی مردہ کا جسم ہوتا ہے میرا نفس بھانپ کی طرح ہے ، میں ایسی چیزیں ادراک کر سکتی ہوں جو حالت بیداری یا دوسریحالت میں ادراک نہیں کر سکتی ۔ میری یہ حالت پندرہ منٹ سے زیادہ دیر تک نہیں رہتی اور اس کے بعد وہ بھانپ والا جسم آہستہ آہستہ میرے ٹھوس اعضاء میں تحلیل ہوجاتا ہے اور پھر یہ شعور اور یہ حالت بالکل معدوم ہوجاتی ہے ۔ ص۲۱۹۔
مرنے کے بعد جو لوگوں کے سامنے بہت سے حقائق آجاتے ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسوقت خاکی جسم کی توانائی ختم ہوتی ہوئی یا ماند پڑ گئی ہوتی ہے اور ہمارے نوری جسم کا غلبہ و اقتدار بڑھ گیا ہوتا ہے اس کی وجہ سے بہت سے حقائق دیکھنے لگتے ہیں ۔ ہمارا یہ نوری جسم پس موت کے وقت ہمارا ساتھیرہتا ہے ۔

دراصل میرا موضوع یہ تھا کہ خدا نے ہر چیزکو زوج پیدا کیا ہے ۔پھر کس طرح جسم دو ہیں ۔ دنیا بھی دو ہیں ۔ حیات بھی دوہیں ۔ حیات الدنیا وحیات الاخرۃ
موت بھی دو ہیں ایک عارضی جسے نیند کہتے ہیں ، دوسری دائمی جسے موت کہتے ہیں
قرآن میں دونوں نیند اور موت کو وفا کہا ہے
اسی طرح بعثت دو ہیں ۔ نیند سے بیداری ۔ اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ۔
قرآن ان دونوں صورتوں کو بعثت قرار دیتا ہے ۔ یعنی ازروئے قرآن ہر چیز جوڑا جوڑا۔ دو دوہیں ۔
اس نوری جسم کو جو ہمارا اپنا ہوتا ہے آپ ہمزاد کہہ لیں ،ٹوئن اینجل کہہ لیںیا جو چاہیں نام دے لیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کی نوری دنیا میں ماضی حال اور مستقبل ، وقت اور فاصلے کی کوئی قندیل نہیں ۔ وہ چیزیں جو ہمارے لئے آڑ اور اوٹ ہیں اس کے لئے نہیں ۔ وہی نوری جسم بحالت خواب آپ کو لئے لئے پھرتا ہے ، وہی اطلاعات دیتا ہے ، وہی مسمریزم کے عمل سے اپنی آگاہی کا ثبوت دیتا ہے اور وہی ریاضت سے حاضر ہو کر آپ کے کاموں میں مدد دیتا ہے ۔

زمانہ قدیم میں بزرگوں نے ریاضت سے ایسے طریقے معلوم کئے جن سے دونوں اجسام کے درمیان جو اوٹ ہے وہ ختم ہوجاتی ہے ۔ مقصد ان کا یہ تھا کہ بجائے ہمارا نوری جسم یا ہمزاد ہم کو بذریعہ خواب دنیا کی سیر کرائے ہم جس وقت چاہیں سیر کر سکیں اور بجائے اس کے کہ کسی دوسرے پر عمل مسمریزم کرکے اسکے ہمزاد سے مشورہ لیں ، اپنے ہمزاد کو بلاکر رائے لیا کریں ۔ اور چونکہ زمان و مکان وفاصلہ اسکے لئے کوئی چیز نہیں ، اس سے جو چاہیں وہ منگوا سکتے ہیں ظاہر ہے کہ ہماری خاکی دنیا اورنوری دنیا کے درمیان جو آڑ ہے یا خاکی جسم اورنوری جسم کے درمیان جوآڑ ہے اس کو دور کرنا معمولی بات نہیں اس کے لئے کہ یہ فطرت ہے اور قوانین فطرت کو توڑنا معجزہ ،کرامت جیسی قوتوں سے ہی ممکن ہے ۔ آدمی کا صاحب نظر ہونا یہی معنی رکھتاہے کہ اسے نوری نظر حاصل ہوجائے اور یہ تمام قوتیں سخت محنت اور ریاضت چاہتی ہیں ۔

بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہمیں کوئی مستند اور کم سے کم دن والا عمل درکار ہے ۔میرا اپنا نظریہ ہے کہ کئی سالوں کی محنت کے بعد بھی آپ نے اس قوت کو حاصل کرلیا تو سمجھ لیں کہ مفت ہاتھ آگئی ۔
حیرت اس بات پر ہے کہ انسان کئی سال اسکول میں لگاتا ہے ، اس پر کئی اخراجات بھی آتے ہیں ، پھر کہا جاتا ہے کہ میٹرک پاس ہوگیا ۔ معاوضہ کیا ملتا ہے ؟؟
در در کی ٹھوکریں ،نوکری نہ ملنے کا شکوہ ۔ بلکہ موجودہ دور میں تو اچھے خاصے تعلیم یافتہ احباب بھی بے روزگاری کا شکار ہیں ۔
لیکن دوسری دنیا سے یا دوسری انجانی قوتوں کو حاصل کرنے کے لئے ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ دو دن میں ہوجائے یعنی ایک ادنیٰ قوت کے لئے تو کئی سال صرف کردئیے جاتے ہیں اور ایک اعلیٰ قوت کے لئے صرف چند دن ۔۔۔۔۔۔۔

بس عقل پر ہی رونا چاہئے ، یہی انسان کی بے وقوفی ہے جو اسے محروم رکھتی ہےاور نظریہ رکھتا ہے کہ عمل کوئی ٹھیک نہیں ملتا ۔.

AMAL SHAH PARI NOORAN KI HAZRI




IS AMAL KI (40) DIN PARRHAYE KARNI HO GE NOORAN PARI JO SHAH PARI HAI JO KHUBSURAT TAREEN HAI HAZIR HO GE AMAL K SHURU MEI DAR KHOF BOHAT AAYE GA HALAN K LOG SAMAJHTAY HEN BUS AMAL KIYA AUR PARI HAZIR AISA NAHI PEHLEY YEHE PARI KHOFNAK CHURRAIL KI SHAKAL MEI AAYE GE , SHER AUR KHOONKHAR DARINDAY NAZAR AAYEN GE JAB IN SAB MARHALON KO AAP PAAS KAR LEN GE PHIR PARI HAZIR HO GE JO ITNI KHUBSURAT HASEEN HO GE K AAP BUS DEKHTAY HE REH JAYEN GE AAP SAB BHOOL JAYEN GA AISA HUSN HO GA !AMAL IJAZAT K SATH KAREN TA K NUQSAN NA HO. 



Contact :  03338239180

Monday, November 11, 2013


PARHAIZ E JILALI WA JAMALI



حسبِ وعدہ پرہیزِ جلالی جمالی پہ پوسٹ حاضرِ خدمت ہے۔ اسکو سمجھنا چنداں مشکل امر نہیں۔ صاحبِ علم اور صاحبِ عقل یقینا اس مضمون کی داد دیں گے۔

ہر وہ چیز جس کا ماخذ روح یا بو ہے ممنوع ہے

یہی پرہیز جلالی جمالی ہے اسی ایک جملہ میں قانون موجود ہے، اردو کی کتبِ عملیات میں پرہیزِ جلالی اور جمالی دو علیحدہ  علیحدہ  چیز سے موسوم ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے۔ روحانیات یا سفلیات میں جو پرہیز مطلوب ہیں وہ صومِ روحانی کہلاتے ہیں یعنی سپرچوئل فاسٹنگ اور یہ ایک ہی طرح سے ہیں جلالی یا جمالی علیحدہ کچھ نہیں ہوتے ۔ اور یہ چیز قبل از اسلام سے یہود اور عیسائی عاملین کام میں لاتے تھے اور یہ انجیل سے ثابت شدہ ہے [قبل از اسلام روزہ کی یہی کیفیت تھی تفصیل کیلیئے بائبل یا گوگل پہ سپرچوئل فاسٹنگ کی معلومات لی جا سکتی ہیں]۔ اب بھی عیسائی ہی سب سے زیادہ صومِ روحانی سے کام لیتے ہیں۔ اگر آپ عملیات کی کتب معتبرہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ پرہیز جلالی یا پرہیز جمالی دو علیحدہ علیحدہ چیزیں بالکل ہی نہیں۔ اردو کتب میں نقال اور جعلی عاملین نے اس قاعدہ کو بھی غلط اور بے ہودہ انداز میں پیش کیا۔ ایک طالب علم کو دو مختلف پرہیز بتائے اور اصل حقائق سے محروم ہی رکھا۔ حالاںکہ عملیات میں جو پرہیز یا صوم مطلوب ہے وہ اسی ایک جملہ میں موجود ہے۔ پرہیز جمالی بالکل ناقص ہے اسکا کرنا یا نا کرنا برابر ہے کیوںکہ اس پہ عمل کرنے سے اس متذکرہ جملہ کی شرائط پوری نہیں ہوتیں اور عمل میں ہمیشہ ہی ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ پرہیز جلالی میں وہ تمام اشیا بیان کر دی گئیں جو اس جملہ کی شرائط کو پورہ کرتی ہیں۔ اس سے کہیں بہتر تھا کہ مختلف چیزوں کا نام رٹوانے کی بجائے ایک اصولی کلیہ بیان کر دیا جاتا۔ اور یہ کلیہ ہر کتاب سحر میں مزکور ہے لیکن نقال اردو مترجمین نے اس میں تحریف کر کے مخلوقِ خدا کو گمراہ کیا۔ میں نے مترجمین کا لفظ اسلئے لکھا کہ جن عملیات کا یہ خود کو عامل بتاتے ہیں یہ تمام عملیات انہوں نے عرب اور ایران کی کتب سے نقل کر کے لکھے ہیں، اور اگر آپ مستند کتب کا مطالعہ کریں تو یہ حقائق آپ کو وہاں مل جایئں گے۔
روح کے اخراج سے مراد اینمل پروڈکٹس ہیں۔ یعنی وہ تمام اشیاء جن کا ماخذ حیوانات ہیں کہ جانوروں میں روحِ حیوانی موجود ہے، اور بو سے مراد بدبودار اشیاء ہیں۔
اب یہاں علویات اور سفلیات کا بھی فرق سمجھ لیں، سفلی عمل میں آپ جانور کی سواری بھی نہیں کر سکتے اور جانور کو ذبح بھی نہیں کر سکتے، لیکن اسلامی عملیات میں آپ یہ دونوں کام کر سکتے ہیں۔ سفلی عملیات میں شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء ممنوع نہیں لیکن اسلامی عملیات میں ممنوع ہیں۔ یعنی اگر سفلی عملیات اور سحر کرنا ہو تو یہی جملہ کسوٹی ہے اور جب قرآنی عملیات کرنا ہوں تو اس جملہ کے ساتھ شریعت کے حلال حرام کا بھی خیال رکھا جائے گا۔
مثال کے طور پہ صوم روحانی کی رو سے عملیات میں شراب جائز ہے لیکن علوی عملیات میں ممنوع ہو گی حالاںکہ شراب میں بھی بو موجود ہے لیکن سفلیات میں ہر غلط کام اجابت کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ سفلیات میں صومِ روحانی میں پاکی نہیں کر سکتے لیکن قرآنی عملیات میں ضرور کریں۔ نہ کرنے کی صورت میں کامیابی کی توقع عبث ہے، حالاںکہ کاش البرنی نے پاکی سے بھی منع کیا لیکن یہ شرط صرف سفلیات کیلیئے ہے علویات کیلیے بالکل نہیں۔
اب اگر اس جملہ کی تشریح کی جائے تو
گوشت، انڈہ، مچھلی، دیسی گھی، لسی، دہی، دودھ، لہسن، پیاز وغیرہ وغیرہ ہی سے پرہیز مقصود ہے۔
اور اگر لہسن یا پیاز کو اچھی طرح پکا لیا جائے تو کھایا جا سکتا ہے۔
اور یہ جو اردو کتب میں لکھا ہے کہ پھل استعمال نہ کیے جائیں کیوںکہ پھلوں پہ مکھیاں بیٹھتی ہیں بالکل غلط ہے۔ ہر طرح کے پھلوں کا استعمال بالکل درست ہے۔
اب میرا ذاتی طریقہ اور تجربہ یہ ہے کہ میں قرآنی عمل میں شرعی روزہ سے کام لیتا ہوں اور سب کچھ کھانا جائز مانتا ہوں کیوںکہ اس ریاضت کا بنیادی مقصد ضبطِ نفس ہے، اور
ضبطِ نفس کیلیے شرعی روزہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اسلیے میرے نزدیک شرعی روزہ یہ جملہ تمام مقصد پورہ کر دیتا ہے اور قربِ الٰہی کی وجہ ہونے سے قرآنی عمل جلد اجابت ظاہر کرتا ہے ۔ دیگر بھائی اگر پرہیز کرنا چاہیں تو صوم روحانی کر سکتے ہیں۔ اور اگر بہت زیادہ اثر مطلوب ہو تو شرعی روزہ اور روحانی روزہ دونوں سے کام لیا جائے یعنی صوم روحانی اور صومِ شرعی دونوں کر لیے جائیں یعنی سحر و افطار میں صرف وہ اشیاء کھائیں جو صومِ روحانی کی رو سے کھانا جائیز ہوں
۔